BAABULILM Notes

قائد اعظمؒ کے ارشادات

قائد اعظمؒ کے ارشادات:۔


اردو زبان ہندوستان میں مسلمانوں کے شاندار اور تابناک ماضی کی آئینہ دار بھی تھی اور پاکستان میں مسلمانوں کے روشن اور خوش کن مستقبل کا اظہار بھی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قائد کے فرامین کی روشنی میں اس زبان کو اس کے جائز مقام کے اعتبار سے اہمیت دی جائے۔ قائداعظمؒ نے مختلف مواقع پر اردو زبان کی اہمیت، افادیت اور اس کی ترویج و اشاعت کے حوالے سے ،جو ارشادات فرمائے اُن میں سے چند فرمودات  بالترتیب ذیل میں درج ہیں۔

پہلا بیان( 1942ء):۔

قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا پہلا بیان 1942ء ”پاکستان مسلم انڈیا“ دیباچے میں کچھ اس طرح سے تحریر کیا گیا ہے۔

”پاکستان  کی سرکاری زبان اردو ہو گی۔“

دوسرا بیان (1946ء):۔

قائد اعظمؒ  نے 10 اپریل 1946ء کو اپنے آل انڈیا مسلم لیگ  اجلاس ،دہلی    میں فرمایا :۔

”میں اعلان کرتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی۔“

تیسرا بیان (1948ء):۔

 

تیسرا بیان جسے سرکاری اعتبار سے فرمان کا درجہ حاصل ہے۔ جلسہ عام ڈھاکہ 21 مارچ 1948ء میں قائد اعظمؒ کا خطاب ہے جس میں انہوں نے فرمایا:۔

Jinnah Speach in Dhaka - 21 April 1948
Jinnah Speach in Dhaka – 21 April 1948

یہ بھی پڑھیں:۔ آن لائن مشاورتی اجلاس

”میں آپ کو صاف صاف بتا دوں کہ جہاں تک آپ کی بنگالی زبان کا تعلق ہے۔ اس افواہ میں کوئی صداقت نہیں کہ آپ کی زندگی پر کوئی غلط یا پریشان کن اثر پڑنے والا ہے۔ اس صوبے کے لوگوں کو حق پہنچتا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ اس صوبے کی زبان کیا ہو گی۔ لیکن یہ میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور صرف اردو ، اور اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں۔ جو کوئی آپ کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ پاکستان کا دشمن ہے۔ ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی کام کر سکتی ہے۔ دوسرے ملکوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے وہ اردو ہی ہو گی۔“

چوتھا بیان (1948ء):۔

چوتھا بیان 24 مارچ 1948ء کا ہے اسے بھی سرکاری اعتبار سے فرمان کا درجہ حاصل ہے۔ جس میں قائد اعظم ؒ نے فرمایا:۔

”اگر پاکستان کے مختلف حصوں کو باہم متحد ہو کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونا ہے تو ان کی سرکاری زبان ایک ہی ہو سکتی ہے اور وہ میری ذاتی رائے میں اردو اور صرف اردو ہے۔“

Jinnah declaring Urdu as National Language
Jinnah in Dhaka Declaring Urdu as National Language – 24 April, 1948

قائد اعظم محمد علی جناحؒ دور اندیش راہنما تھے۔ انہوں نے دو ٹوک انداز میں اردو زبان کی قومی اور سرکاری اہمیت اور حیثیت کو سمجھا اور اسے اس کا جائز مقام دینے، اس کی افادیت کو تسلیم کرنے کے احکامات جاری کیے۔ انہوں نے اردو زبان کے شاندار ماضی کو بھی خراج تحسین پیش کیا اور مستقبل میں اس زبان کے فکری اور معنوی پھیلاؤ کو اپنی چشمِ تصور سے ملاحظہ کرتے ہوئے اسے پاکستان کی یگانگت ، اتحاد ، اور یکجہتی کی علامت قراد دیا۔

اردو کی تہذیبی اور فکری اہمیت:۔

وہ اردو کی تہذیبی اور فکری  اہمیت سے آگاہ تھے۔ ان کے نزدیک اردو نہ صرف برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے مذہی، فکری، تہذیبی ، سیاسی ، سماجی اور معاشرتی رویوں کی آئینہ دار تھی اور ہے، بلکہ اس کا پھیلتا ہوا منظر نامہ مسلم امہ کی دوسری زبانوں کے ساتھ اس قدر فکری اور معنوی اشتراک رکھتا ہے کہ یہ مسلمانانِ برصغیر کو امت مسلمہ کے مجموعی دھارے کے ساتھ وابستہ رکھنے میں بھی کار گر ثابت ہو سکتی ہے۔

اسےضرور  پڑھیں:۔ اردو ہماری قومی زبان (حصہ دوم)

قیام پاکستان کے بعد جب کچھ عناصر نے اردو کی بجائے بنگالی کو قومی زبان کے طور پر رائج کرنے کا نعرہ لگایا تو قائد اعظم ؒ نے نہایت سختی کے ساتھ اس رویے کی مخالفت کی۔ انہوں نے واضح اور دوٹوک الفاظ میں فرمایا کہ پاکستان کی قومی ، سرکاری اور دفتری زبان اردو اور صرف اردو ہو گی اور یہی زبان پاکستانی عوام کی امنگوں کی ترجمان بھی ہے اور ان کے ثقافتی اور تہذیبی رویوں کی آئینہ دار بھی۔

صوبوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ:۔

یہ زبان پاکستان  کے تمام صوبوں کے درمیان رابطے کی زبان کا فریضہ بھی سر انجام دیتی ہےاور ملکی سالمیت اور وقار کے لئے اس کا وجود ناگزیر ہے۔ قائد اعظمؒ کے ارشادات کی روشنی میں اردو زبان کے سرکاری اور دفتری سطح پر نفاذ کے لئے عملی صورتیں موجود ہیں۔ قائد نے تحریک آزادی کے لئے بے پناہ جدو جہد کی اور انگریزوں اور ہندوؤں جیسی متعصب قوموں کےپنجے سے مسلمانوں کو آزاد کروایا۔

ان کی دو اندیشی اور مستقبل شناسی پر کسی کو کیا شک ہو سکتا ہے۔ اگر ہم تحریک پاکستان میں ان کی شخصیت اور فکر کےبنیادی رویے کے قائل اور قدردان ہیں تو اردو زبان کو سرکاری اور دفتری زبان ماننے اور ان حیثیتوں میں اسے رائج کرنے میں ہمیں کوئی تحمل نہیں ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:۔انقلابی رہنما چی گویرا

سرکاری سطح پر ترویج اور اشاعت کا حکم:۔

قائد اعظمؒ کے ارشادات میں نہایت واضح طور پراردو  زبان کے بارے میں پاکستان کی قومی اور سرکاری سطح پر ترویج اور اشاعت کا حکم موجود ہے۔ چوہدری احمد خاں  کچھ یوں لکھتے ہیں۔

”ظاہری طور پر ہم پاکستانی قائد اعظمؒ کے وفادار ہیں۔ قائد اعظمؒ کے ایام ولادت و وفات سرکاری طور پر مناتے ہیں۔ اخبارات قائداعظمؒ نمبر نکالتے ہیں۔ قائداعظمؒ کی جائے ولادت ، ان کا ذاتی سامان اور سارے کاغذات حکومت نے محفوظ کر لئے ہیں۔ قائد اعظمؒ کے اقوال ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر بھی آتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے سرکار ی طور پر قائد اعظمؒ کی سوانح عمری (نامکمل) تیار کروائی ہے۔ کراچی میں قائداعظم ؒ کے مقبرے پر چوبیس گھنٹے سرکاری گارڈ متعین رہتی ہے۔

تمام کرنسی نوٹوں پر قائداعظمؒ کی تصویر ہوتی ہے۔ ڈاک کے یادگاری ٹکٹوں پر قائد اعظمؒ کی تصویر ہے۔ ہر سرکاری دفتر میں بھی قائداعظمؒ کی تصویریں ہوتی ہیں۔ پنجاب کے ہر ضلع کے ڈسٹرکٹ کونسل ہال کا نام جناح ہال ہے۔ قائد اعظمؒ کا صد سالہ جشن ولادت بڑے تزک و احتشام سے سرکاری طور پر منایا گیا۔ ایک یونیورسٹی ، ایک بڑا ہسپتال اور ایک میڈیکل کالج قائد اعظمؒ کے نام سے موسوم ہیں۔ جلسوں میں قائداعظمؒ کے زندہ باد کے نعرے بھی لگائے جاتے ہیں۔ کئی مشہور باغ و پارک اور بڑی سڑکیں قائد اعظمؒ کے نام پر ہیں۔ لیکن ارباب اختیار قائداعظمؒ کے فرامین متعلقہ سرکاری زبان کی خلاف ورزی کرتے ہیں“

« پچھلا صفحہاگلا صفحہ » 

About Author:

Muhammad Irfan Shahid

Muhammad Irfan Shahid is a renowned educationist and a prolific lecturer in Central Group of Colleges, Faisalabad. He is a lecturer, Web Designer and Developer as well as Writer. Over the past two years, he has written hundreds of articles on everything i.e. Computer, Education and History.

6 thoughts on “اردو ہماری قومی زبان (قائد اعظم کے ارشادات)”

    1. یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے جسے اس مضمون میں بیان کرنے کی کوشش کی گئ ہے… اگلی قسط جلد ہی پوسٹ کر دی جائے گی.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *