BAABULILM Notes

اُردُو ! ہماری قومی زبان


زبان کا تعارف:۔

تحریر ہو یا تقریر زبان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انسان کی برتری میں زبان بھی ایک ہم عنصر ہے۔ زبان کو ماہرین نے دو طرح سے استعمال کیا ہے۔ ایک زبان بمعنی لسانیات (Linguistic) اور دوسرے زبان بمعنی بولی(Language)۔

دونوں حوالوں سے زبان کی افادیت و اہمیت سے انکار کا جواز نہیں جہاں خالقِ کائنات نے انسان کو رنگ و قبائل اور دیگر معاملات میں جدا جدا پیدا کیا ہے۔ وہیں زبان کے سلسلے میں بھی مختلف اقوام ، ممالک ، خطوں اور علاقوں کی زبان میں فرق ہے اور یہ ربِ کائنات کی نشانیوں میں سے ہے۔ خدائے دو جہاں قرآنِ کریم فرقان ِ حمید میں فرماتے ہیں۔

“وَمِنٗ آیَاتِہِ خَلَقَ السَّمٰوٰاتِ وَ الاَرٗضِ وَاخّتِلَافِ اَلٗسِنَتِکُمٗ وَاَمٗوَالِکُمٗ”

ترجمہ:۔ “آسمانوں اور زمینوں کے خلق کرنے اور زبانوں اور رنگوں کے اختلاف اُس (اللہ) کی نشانیوں میں سے ہیں.

جب یہ اختلاف اس ذاتِ بابرکات کی آیات میں سے ہےتو اس کو اگر مثبت طور پر اختیار کیا جائے تو یہ قوموں اور ممالک کی ترقی و عروج ، تہذیب و تمدن اور پہچان کی علامت بن جاتا ہے۔

اُردُو زبان کا آغاز و ارتقاء:۔

ہماری ارضِ پاک ”پاکستان“کی قومی زبان اُردُو ہے۔ پاکستان کی تخلیق میں مذہب کے علاوہ زبان کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ اُردُو زبان کے آغاز کے بارے میں ماہرین زبان اور محققین کے نظریات مختلف ہیں۔ تاہم تمام اس بات پر متفق ہیں کہ یہ زبان اسلام اور مسلمانوں کی برصغیر میں آمد کے بعد ہی پروان چڑھی۔

اس سلسلے میں نصیر الدین ہاشمی نے 1933ء میں ”دکن میں اُردُو“ میں یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ ”اُردُو زبان کا آغاز دکن سے ہوا۔“ تاہم حافظ محمود شیرانی نے 1928 ء میں ”پنجاب میں اُردُو“ میں یہ ثابت کیا کہ اردو کا مولد و مسکن پنجاب ہے۔

جب کہ ان دونوں نظریات سے پہلے محمد حسین آزاد 1880ء میں ”آبِ حیات “ میں اُردُو کے بارے میں یہ کہ چکے ہیں کہ ”اُردُو کی ابتدا ء برج بھاشا سے ہوئی. “

اسی طرح ڈاکٹر سہیل بخاری اور مولوی عبدالحق نے دہلی اور اس کے گردو نواح میں اُردُو  کی ابتدا ء کے بارے میں اپنے اپنے نظریات پیش کیے ہیں۔جب کہ سید سلیمان ندوی اپنے مضمون ”سندھ میں اُردُو“ میں اُردُو کا آغا سندھ سے بتاتے ہیں ۔ المختصر جو بھی نظریہ پیش ہوا ہے وہ مسلمانوں کی آمد کے ساتھ ہی پیش کیا گیا ہے۔

” اُردُو “ کا لفظ ترکی زبان کا لفظ ہے جو لشکر ، چھاؤنی یا ”کینٹ“ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔لفظ اُردُو کو بطور زبان تدریجی مراحل سے گرزنا پڑا ہے۔ مثلاً دکنی ، ہندی ، ہندوی ، ہندوستانی، ریختہ ، اُردُوئے معلیٰ اور پھر اُردُو۔

اُردُو زبان اسلامی تہذیب و ثقافت (کلچر ) ، اسلامی عظمت ، اسلامی اخُوّت و بھائی چارے اور سب سے اہم اپنے خطے اور سر زمین کے ساتھ محبت و یگانگت اور ہم آہنگی کی علامت ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں » 

About Author:

Muhammad Irfan Shahid

Muhammad Irfan Shahid is a renowned educationist and a prolific lecturer in Central Group of Colleges, Faisalabad. He is a lecturer, Web Designer and Developer as well as Writer. Over the past two years, he has written hundreds of articles on everything i.e. Computer, Education and History.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *